Nuclear Abolition News and Analysis

Reporting the underreported threat of nuclear weapens and efforts by those striving for a nuclear free world.
A project of The Non-Profit International Press Syndicate Group with IDN as flagship agency in partnership with Soka Gakkai International in consultative
status with ECOSOC.

logo_idn_top
logo_sgi_top

Watch out for our new project website https://www.nuclear-abolition.com/

About us

TOWARD A NUCLEAR FREE WORLD was first launched in 2009 with a view to raising and strengthening public awareness of the urgent need for non-proliferation and ushering in a world free of nuclear weapons. Read more

IDN Global News

Perfecting Detection of the Bomb – Urdu

بم کا پتہ لگانے کی صلاحیت کی تکمیل

از رمیش جورا

وینیا (آئی پی ایس) -ایک بین الاقوامی کانفرنس میں جوہری دھماکوں کا پتہ لگانے، طوفانوں یا آتش فشانی راکھ کے بادلوں کا سراغ لگانے، زلزلوں کے زمینی مرکزی نقطہ کے محل وقوع کا تعین کرنے، بڑے برفانی تودوں کے بہہ جانے کی نگرانی کرنے، آبی پستانیوں کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرنے اور ہوائی جہازوں کے حادثات کا پتہ لگانے کے سلسلہ میں کی گئی پیش رفدت پر روشنی ڈالی گئی۔

یہ پانچ روزہ ‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 2015 کانفرنس’ (SnT2015)، جو کہ 26 جون کو اختتام پذیر ہوئی، 1997 سے آسٹیریائی دارالحکومت میں واقع کامپرہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ٹی بی ٹی او) کی طرف سے منعقدہ ہمہ موضوعاتی کانفرنسوں کے سلسلہ کی پانچویں کڑی تھی۔

اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 1100 سے زائد سائنسدانوں اور دیگر ماہرین، پالیسی سازوں اور قومی ایجنسیوں، آزاد تعلیمی تحقیقی اداروں اور شہری سوسائٹی کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 2015 (SnT2015) میں سی ٹی بی ٹی او کے سینسرز کی ایک اہم دریافت پر روشنی ڈالی گئی، جو کہ 2013 میں، چیلیابنسک، روس میں پھٹ پڑنے والے ایک شہابیہ سے متعلق تھی، جو کم از کم ایک صدی میں زمین سے ٹکرانے والا سب سے بڑا شہابیہ تھا۔

اس کانفرنس کے شرکاء کو یہ بات بھی سننے میں ملی کہ برکینا فاسو اور الجیریا کے درمیان پرواز کرنے والا طیارہ ایئر الجیریا فاسو جو کہ جولائی2014 میں مالی میں حادثہ کا شکار ہوا تھا، اس ہوائی جہاز کا ہوائی حادثہ کی جگہ سے 960 کیلومیٹر کے فاصلہ پر سی ٹی بی ٹی کے کوٹیڈ آئیور میں واقع نگرانی کرنے والے اسٹیشن نے پتہ لگایا تھا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 2015 (SnT2015) کی اہمیت درحقیقت اس وجہ سے ہے کہ سی ٹی بی ٹی او کو جامع جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدہ، کامپرہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی) کی مہم چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جو کہ ہر ایک کے ذریعہ، ہر ایک جگہ پر: یعنی زمینی سطح پر، فضا میں، پانی میں اور زمین کے اندر، جوہری دھماکوں کوغیر قانونی قرار دیتا ہے۔ یہ ایسے قابل اعتماد آلات کو تیار کرنے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے جو کسی بھی جوہری دھماکہ کا پتہ چلانے کو یقینی بنائے۔

ان میں بھونچالی، ہائیڈو-آکاوسٹک، زیریں صوتی ( انسانی کانوں کے ذریعہ سنے کے لئے بہت ہی ہلکی فریکوینسی) اور ریڈیو نیوکلائیڈ سینسرز شامل ہیں۔ سائنسدانوں اور دیگر ماہرین نے اپنے پریزنٹیشنس اور پوسٹروں کے ذریعہ اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کس طرح چار جدید ترین اعلیٰ ٹیکنالوجیاں مصروف عمل ہیں۔

170 بھونچالی اسٹیشن زمین پر واقع ہونے والی جھٹکے والی لہروں کی نگرانی کرتے ہیں، جن کی ایک بڑی اکثریت زلزلوں سے واقع ہوتی ہے۔
لیکن انسانی ہاتھوں سے انجام پانے والے دھماکے جیسے کہ کان میں کئے جانے والے دھماکے، شمالی کوریا کے 2006، 2009 اور 2013 میں کئے گئے ملعنہ دھماکوں کا بھی پتہ لگایا گیا ہے۔

سی ٹی بی ٹی او کے 11 ہائیڈرو-اکاوسٹک اسٹینش سمندروں میں صوتی لہروں کو ‘سنتے’ ہیں۔ دھماکوں سے نکلنے والی صوتی لہریں پانی کے اندرکافی دور تک سفر کر سکتی ہیں۔ زمین کی سطح پر واقع ساٹھ زیریں صوتی اسٹیشن، بڑے دھماکوں سے نکلنے والی بہت ہی ہلکی فریکیونسی والی صوتی لہروں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

سی ٹی بی ٹی کے 80 ریڈیو نیوکلائیڈ اسٹیشن تابکاری والے ذرّات کے لئے فضا کی پیمائش کرتے ہیں؛ جن میں سے 40 اسٹیشن زیر زمین جوہری جانچ سے نکلنے والی اعلی گیس ‘ اسموکنگ گن ‘ کو اُٹھاتے ہیں۔ صرف یہی پیمائشیں اس بات کا واضح اشارہ دے سکتی ہیں کہ آیا دیگر طریقوں سے پتہ لگائے گئے دھماکے واقعی طور پر جوہری تھے یا نہیں۔ سولہ لیباریٹریاں ریڈیونیوکلائیڈ اسٹیشن کو تقویت دیتی ہیں۔

اپنی تکمیل پر سی ٹی بی ٹی او کے انٹرنیشنل مانیٹرنگ سسٹم ( آئی ایم ایس) 337 عمارتوں پر مشتمل ہوگا جو زمین پر جوہری دھماکوں کا پتہ لگانے کے لئے، پورے کرّہ کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ ان میں سے تقریباً 90 فیصد فیسیلیٹیز مکمل ہو چکی ہے اور کام کر رہی ہیں۔

اس کانفرنس کا ایک اہم موضوع کارکردگی میں اضافہ کرنا تھا، جو کہ سی ٹی بی ٹی او کے انٹرنیشنل ڈیٹا سینٹر ( آئی ڈی سی) کے ڈائریکٹر ڈبلیو۔ رینڈی کے مطابق آئندہ سال آئی ایم ایس اور آئی ڈی سی کو ری کیپیٹالائز کرنے کے بعد، ان میں نشونمائی تعلق ہوگا۔

پچھلے 20 سالوں میں، بین الاقوامی کمیونٹی نے اس عالمی نگرانی کے سسٹم پر ایک بلین ڈالر سے زائد رقم کی سرمایہ کاری کی ہے، جس کے ڈیٹا کو سی ٹی بی ٹی او کے رکن ممالک کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے- اور صرف جانچ پر پابندی کی توثیق کےمقصد سے نہیں۔ تمام اسٹیشن سیٹلائیٹ کے ذریعہ وینیا میں واقع آئی ڈی سی کے ساتھ مربوط ہیں۔

”کسی واقعہ کا پتہ لگانے کے لئے، ہمارا اسٹیشن اس ملک میں موجود ہونا ضروری نہیں، بلکہ یہ درحقیقت اسٹیشن کے محل وقوع سے کئی دور ہونے والے واقعات کا پتہ لگا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ڈی پی آر کے ( شمالی کوریا) جوہری جانچ کو پیرو جیسے دور افتادہ ملک سے دیکھا گیا،” یہ بات سی ٹی بی ٹی او کے عوامی تعلقات آفسر میوٹزیل برگ نے آئی پی ایس کو بتائی۔

” ہمارے 183 رکن ممالک کو خام ڈیٹا اور تجزیاتی نتائج دونوں تک رسائی حاصل ہے۔ اپنے قومی ڈيٹا مراکز کے ذریعہ وہ دونوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور پتہ لگائے گئے واقعات کی نوعیت کے مطابق اپنے ذاتی نتائج پر پہنچتے ہیں” انہوں نے کہا۔ پاپوا نیو گنی اور ارجنٹائیبا سے آئے ہوئے سائنسدانوں نے کہا کہ انہیں یہ ڈیٹا ان کے لئے شدید طور پر کار آمد معلوم ہوئے ہیں”۔

ڈیتا کے اشتراک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، سی ٹی بی ٹی کی ایگزیکٹو سیکریٹری لاسینا زربو نے نیچر کے ساتھ ایک انٹروِیو میں کہا : ” اگر آپ اپنے ڈیٹا کو دستیاب کرتے ہیں، تو آپ بیرونی سائنٹفک کمیونٹی کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور آپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے ہیں۔ یہ سی ٹی بی ٹی او کو نہ صرف مزید نمایاں کرتا ہے، یہ ہمیں چار دیواری سے باہر سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آپکو محسوس ہو کہ ڈیٹا ایک دوسرے مقصد کے لئے مستعمل ہو سکتا ہے، جو آپ کو تھوڑا سا پیچھے ہٹنے میں مدد کرتا ہے، تو ایک وسیع تر تصویر کی طرف دیکھیں اور دیکھیں کہ آپ اپنی سراغ رسانی کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔”
تصویر بشکریہ: سی ٹی بی ٹی او

اس کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے زیبرو نے کہا: ” آپ مجھے بار بار یہ بات کہتے ہوئے سنیں گے کہ میں اس ادارہ کے تعلق سے پُر جوش ہوں۔ آج میں صرف پُر جوش ہی نہیں بلکہ آپ تمام لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوں جو اس جذبہ کا اشتراک کرتے ہیں: ایک ایسا جذبہ جو سائنس کو امن کی خدمت کے لئے استعمال کرنے کے لئے ہے۔ اس سے مجھے اس بات کی اُمید ملتی ہے کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئےہمارے وقت کے بہترین اور سب سے زیادہ ذہین سائنسدان بم کو مکمل کرنے کے بجائے بم کا مکمل پتہ لگانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔”

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے نام اپنے پیغٖام میں کانفرنس کے اس کے موضوع کا تعین کرتے ہوئے کہا: ” ایک مضبوط توثیقی نظم و نسق کے ذریعہ اور اپنی انتہائی جدیدترین اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ذریعہ اب سی ٹی بی ٹی کے پاس میدان عمل میں اُترنے کے لئے مزید تاخیر کرنے کے لئے کوئی بہانہ موجود نہیں ہے۔”

جنوبی آفریقہ کے وزیر برائے سائنس و ٹیکلنالوجی، نلیدی پانڈور نے اس بات کو واضح کیا کہ ان کا ملک سی ٹی بی ٹی او کا ” ایک پابند اور مستقل حامی ہے۔” انہوں نے مزید کہا: ” جنوبی آفریقہ پچھلے بیس سالوں سےجوہری عدم پھیلاؤ کی صف اوّل میں رہا ہے۔ ہم نے 1996 میں اپنے جوہری ہتھیاروں کو چھوڑ دیا ہے اور پیلنڈابا معاہدہ پر دستخط کی ہے، جو آفریقہ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ کے طور پر تسلیم کرتا ہے، ایک ایسا علاقہ جو کہ جولائی 2009 میں صرف عملی میدان آگیا تھا۔

سائنسدانوں کے ذریعہ پریزنٹیشن کی پیشی کے علاوہ پینل مباحثہ نے سی ٹی بی ٹی کی نگرانی کرنے والی کمیونٹی کی حالیہ خصوصی دلچسپی پر اپنی توجہ مبذول کی۔ جس کے دوران کسی نے آن سائٹ انسپکشن ( او ایس آئیز) میں سائنس کے کردار کی طرف اشارہ کیا جس کے لئے، اس کے میدان عمل میں اُترنے کے بعد ٹریٹی کے تحت امداد دی گئی ہے۔

اس مباحثہ میں اردن میں منعقدہ 2014 انٹگریٹڈ فیلڈ ایکسرسائز (IFE14) کے تجربات سے فائد اُٹھایا گیا۔ 2014 انٹگریٹڈ فیلڈ ایکسرسائز (IFE14) ایک سب سے بڑا اور جامع ترین ایسی مشق تھی، جس کو اب تک سی ٹی بی ٹی کے او ایس آئی اہلیت کی تعمیر میں انجام دیا گیا تھا۔

اس موقع پر شرکأ کو ان نئی اور سامنے آنے والی ٹیکنالوجیوں کے ذریعہ ادا کی جا سکنے والے جوہری سلامتی کے چیلنجز پر قابو پانے کے مواقع پر ایک مبحثہ سننے کا موقع ملا۔ ٹیکنالوجی فار گلوبل سیکوریٹی (Tech4GS) گروپ کے اراکین نے سیٹیزنس نیٹورک: ٹیکنالوجیکل اختراع کی اُمید افزائی پرسابق یو ایس سیکریٹری برائے دفاع ویلیئم پیری کے ساتھ شامل ہو گئے۔

ہم ایک مزید جوہری اسلحہ کی دوڑ کی طرف گامزن ہیں،” یہ بات پیری نے کہی۔ ”میں نہیں سمجھتا کہ یہ ناقابل تنسیخ ہے۔ یہ رکنے اور مسائل کی عکاّسی کرنے اور ان پر مباحثہ کرنے اور یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ آیا کوئی تیسری پسند، کچھ متبادل، کچھ نہ کرنے اور نئی ہتھیاروں کی دوڑ رکھنے کےدرمیان موجود ہے۔۔

اس کانفرنس کی ایک نمایاں خصوصیت سی ٹی بی ٹی اکیڈمک فورم تھی جس نے ”تعلیمی مصروفیات کے ذریعہ سی ٹی بی ٹی کی مضبوطی’ پر زور دیا، جس پر باوقار ایمی ایوارڈ یافتہ اور ڈاکیومینٹرریز اینڈ نیٹورک نیوز پروگرام کے ڈائریکٹر باب فرائے نے ” تنقیدی مفکرین کی اگلی نسل’ کو ترغب دینے کی ضرورت پر آواز دی تا کہ جوہری جانچوں اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے جوہری ہتھیارات سے پاک دنیا کا آغاز کیا جا سکے۔

اس فورم نے، آسٹیریا، کینڈا، چین، کوسٹا ریکا، پاکستان اور روس میں ٹیچروں اور پروفیسروں کے نقطہ نظر سے سی ٹی بی ٹی کے سکھانے والے ایک متاثر کُن سی ٹی بی ٹی آن لائن تعلیمی وسائل اور تجربات کا ایک جائزہ فراہم کیا۔

سائنس اور پالیسی کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے مقصد سے فورم نے ” پالیسی سازوں کے لئے ٹیکنیکل تعلیم اور سائنسدانوں کے لئے پالیسی سے متعلق تعلیم’ پر مباحثہ کیا، جس میں قریبی ماہرین بشمول ریبیکا جانسن، جو کہ ایکرانیم انسٹی ٹیوٹ فار ڈِس ارمامینٹ ڈپلومیسی؛ جیمس مارٹین سینٹر فار نان- پرولیفریشن اسٹڈیز کے نیکولائی سوکوہ، مِڈلبری انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈالنوکی ورسیس، سینٹر فار سیکیوریٹی اسٹڈیز، جارج ٹاؤن کے ایڈوارڈ ایفٹ، اور یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا کے شعبہ سائنس کے میٹ یلڈن نے حصّہ لیا۔

سی ٹی بی ٹی کے تکنیکی مسائل کو ڈپلومیٹس اور دیگر پالیسی سازوں کی تربیت کے لئے مربوط کرنے کی ضرورت اور سی ٹی بی ٹی اور وسیع تر جوہری عدم پھیلاؤ اور ہتھیاروں سے پاک کرنے کی پالیسی کے مسائل کو سائنسی کمیونٹی کے اندر پر بیداری پیدا کرنے کے تعلق سے عمومی رضامندی پائی گئی۔

ایک اور پینل – سی ٹی بی ٹی او کے خارجی تعلقات، پروٹوکال اور بین الاقوامی تعاون، امیریکن اسوسی ایشن فار کی ایڈوانمنٹ آف سائنس، ڈبلن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز کے تھا مس بلیک پیس کارڈن، اور فیڈریشن آف امیریکن سائنٹسٹس کی جینیفر میکبائی پر مشتمل اس پینل میں تعلیمی میدان سے آگے بڑھتے ہوئے شہری سوسائٹی، نوجوانوں اور میڈیا کے ساتھ ایک نیا اور بہتر تعلق پیدا کرنے کے سلسلہ میں مباحثہ کے ذریعہ لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

”ترقی اضافہ سے آتی ہے،” ایک پینالسٹ نے کہا، لیکن بذات خود اس کے ذریعہ نہیں۔” (30 جون 2015 IPS)

[ویلنٹینا گیسبری کی طرف سے اضافہ کے ساتھ]

 

 

 

Search

Newsletter

Report & Newsletter

Toward a World Without Nuclear Weapons 2022

Scroll to Top